السلام علیکم حضرت کسی اور سے استخارہ کروانا کیسا ہے اور کیا استخارے کا مختصر طریقہ بھی ہے؟
استخارے میں سنت یہی ہے کہ خود کیا جائے،کسی اور سے استخارہ کروانا ثابت نہیں۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:1162)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ استخارہ خود کرنا چاہیے،کیونکہ اگر کسی اور سے استخارہ کروانا بہتر ہوتا تو آنحضرتﷺصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواستخارہ سکھانے کا اس قدر اہتمام نہ فرماتے،اسی طرح استخارے کی مسنون دعا کے الفاظ میں صیغۂ متکلم کے استعمال سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ صاحب معاملہ کو استخارہ خود کرنا چاہیے۔
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:’’مقصود یہ ہے کہ استخارہ اللہ پر توکل اور اپنا معاملہ سپرد کرنے کا نام ہے۔ یعنی اس کی قدرت، علم اور بندے کے لیے اس کے بہترین انتخاب پر بھروسا کرنا۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ بندہ اللہ کو رب مانتا ہے۔ اور جو اللہ کو رب نہ مانے، وہ اسلام کا اصل مزہ نہیں چکھ سکتا۔ اگر استخارے کے بعد بندہ تقدیر پر راضی ہو جائے تو یہ اس کی خوش بختی کی علامت ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ استخارہ کا یہ مقصدصرف خود استخارہ کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے دوسرے سے استخارہ کروانا، ناجائز تونہیں، لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ۔
استخارہ کا اصل اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے، اس میں جو چیز میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو جناب رسول اللہ ﷺنے تلقین فرمائی ہے۔’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَأَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ،فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ‘‘ (صحیح بخاری،حدیث نمبر: 1162)
وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے استخارے کی نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں صرف دعا کے ذریعے بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ فرماتے، تو یوں دعا کرتے: ’’اللهم خر لي واختر لي‘‘ یعنی: ’’اے اللہ! میرے لیے بہتر فیصلہ فرما اور میرے لیے اُسی کو منتخب فرما۔‘‘
صحيح البخاري: (2/ 56،رقم الحديث:1162،ط:دارطوق النجاة)
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: إذا هم أحدكم بالأمر، فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أو قال: عاجل أمري وآجله، فاقدره لي، ويسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي، في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني. قال: ويسمي حاجته.
سنن الترمذي: (5/ 492،رقم الحديث:3516،دارالغرب الاسلامي)
عن أبي بكر الصديق : أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان إذا أراد أمرا قال: اللهم خر لي واختر لي.
زاد المعاد: (2/ 519، ط :دارعطاءات العلم)
والمقصود أنَّ الاستخارة توكُّلٌ على الله، وتفويضٌ إليه، واستقسامٌ بقدرته وعلمه وحسنِ اختياره لعبده، وهي من لوازم الرِّضى به ربًّا، الذي لا يذوق طعمَ الإسلام من لم يكن كذلك، فإن رضيَ بالمقدور بعدها فذلك علامة سعادته.
مرقاة المفاتيح: (3/ 987،ط: دار الفكر)
وإن كان الأمر عجلة فليقل: اللهم خر لي بكسر الخاء، واختر لي واجعل لي الخيرة بفتح الياء فيه، أو اللهم خر لي واختر لي، ولا تكلني إلى اختياري.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح :(ص397،ط: دار الكتب العلمية)
إذا تعذر عليه الصلاة استخار بالدعاء فقد روى الترمذي بإسناد ضعيف عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد الأمر قال اللهم خر لي واختر لي اهـ